The Web Saghir Blog

Monday, January 21, 2008

ایک میجر کا گِلہ



پچھلے ہفتے جب صدر مشرف کی پنشن اور کروڑوں کی جائیداد کی بات کی تو سرزنش کے دو خطوط موصول ہوئے۔ ایک کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کا تھا جن کا اعتراض تھا کہ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ سب فوجی اتنی عیش کرتے ہیں۔

ان کے مطابق فوج واحد ادارہ ہے جس میں ساٹھ فیصد افسران کوئی 45 برس کی عمر میں نوکری سے فارغ ہو جاتے ہیں اور ایک پلاٹ لے پاتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے فوج کی بے بہا قربانیوں کا ذکر کرنا چاہیے تا کہ میرا تجزیہ متوازن لگے۔ میجر صاحب کا خیال تھا کہ میرا بیان کسی ذاتی بغض کی ترجمانی کرتا ہے۔

شاید میجر صاحب میری بات سمجھ نہیں پائے۔ فوج کی معیشت کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس کے حصہ دار بڑے افسران ہیں نہ کہ وہ بہت سارے جو جلد ہی نوکری سے فارغ ہو جاتے ہیں۔

زرعی زمین کی بات ہی لے لیں۔ یہ ایک پوائنٹ سسٹم کے فارمولے پر افسران اور جوانوں کو بھی ملتی ہے لیکن اکثر جوان زمین چھوڑ آتے ہیں کیونکہ ان کو پانی اور کھیت سے منڈی کی سڑک جییسی دو بنیادی مراعات نہیں ملتیں۔ ان جوانوں کی زمین پر نظر رکھنے کے لیے ان علاقوں میں تعینات چھوٹے افسران وہ سب کچھ نہیں کرتے جو کہ وہ بڑے افسران کے لیے کرتے ہیں

ذرا شہری زمین کی طرف آئیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں جوانوں کا جو کہ قربانیاں دیتے ہیں، کوئی حصہ ہے ہی نہیں۔

معلوم ہے کہ فوج میں نظم و ضبط ہونے کی وجہ سے کوئی بڑے افسران کے بارے میں بات نہیں سنتا لیکن بات تو یہ ہے کہ بہت سے فائدے اوپر کی سطح پر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لیے تمام فوج سے تو کوئی گلہ بھی نہیں۔

رہی بات قربانی کی تو میجر صاحب یہ دیکھیں کہ اس قوم نے ہمیشہ اپنی فوج کی بہت تائید کی ہے۔ کبھی جنگ ہارنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ فوجی معاملات کو الگ رکھا ہے۔ نہ کبھی کوئی سوال کیا کہ ایسی حکمتِ عملی کیوں اختیار کی جس میں ہزاروں جانیں چلی گئیں اور اربوں کا نقصان ہوا۔

اور پھر یہ تو غور کریں کہ ان جنگوں کو اور قربانیوں کو کتنا یاد رکھا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے۔ دوسری طرف اور بہت سارے لوگ ہیں جن کی قربانیوں اور کامیابیوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

مثلاً کسی نصابی کتاب میں ان پولیس والوں کا ذکر ہے جو کہ روزانہ لوگوں کی حفاظت کرتے ہوئے مر جاتے ہیں؟ اس کو چھوڑیں کیا ہم ڈاکٹر عبدالسلام کی بیش بہا خدمات کا ذکر کرتے ہیں اور بے شمار شعرا اور دانشوروں کا کیا قصور ہے کہ ان کا ذکر نہیں ہوتا۔

دور کیوں جائیں ہم نے تو عمران خان کےساتھ بھی، جس نے پاکستان کے لیے پہلا اور شاید آخری ورلڈ کپ جیتا، اس کے ساتھ بھی ایسا ناروا سلوک کیا۔

شاید میجر صاحب کا گلہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ فوج ایک طاقتور ادارہ ہے جس کی بات یا تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ میری تو صرف یہ عرض ہے کہ ہماری بات بھی سن لیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا اس پاکستان کی سالمیت کے لیے بہت ضروری ہے۔

No comments: